یہ کون سا پاکستان ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ یہ کون سا دین ہے؟ ایسا ظلم تو کوئی کافر بھی نہیں کرتا۔ کسی کی ناموس کے ساتھ اس طرح کھیلنا، کسی کی بہنوں کو بے دردی سے مارنا، انہیں سڑکوں پر گھسیٹنا—یہ کون سے اخلاق، کون سی شریعت اور کون سی ریاست کی تصویر ہے؟ کیا یہ اسلام ہے؟ کیا یہ پاکستان ہے؟ کیا یہ قرآن ماننے والوں کا طرزِ عمل ہے؟
آج اڈیالہ جیل کے باہر پنجاب حکومت کے اشارے پر پنجاب پولیس نے سابق وزیرِاعظم عمران خان کی بہنوں اور دیگر عورتوں پر جو سفّاکی کی ہے، وہ انسانیت کے چہرے پر طمانچہ اور ریاستی طاقت کے بدترین استعمال کی مثال ہے۔ یہ ظلم صرف ظلم نہیں یہ اُس کردار کی زندہ تجدید ہے جس نے اہلِ بیتؑ علیھم السلام کی عورتوں پر ہاتھ ڈالا تھا۔
یہ وہی روش ہے جو یزید کی فوج نے اختیار کی تھی، جب اہلِ بیتِ رسول علیھم السلام کی مقدس خواتین کی چادریں چھینی گئیں، ان کی حرمت پامال کی گئی، اور انہیں ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ آج جو کچھ ہوا ہے، وہ اسی یزیدی سوچ کا جدید روپ ہے۔ یزید کی فوج جب چاہے نام بدل لے، چہرہ بدل لے، مگر اس کے کردار کی بدبو زمانہ پہچان لیتا ہے۔
خواتین کی حرمت پر ہاتھ ڈالنے والے نہ مسلمان کہلانے کے لائق ہیں، نہ پاکستانی کہلانے کے۔ یہ وہی یزیدی کردار ہیں جنہوں نے تاریخ کو خون میں ڈبویا تھا، اور آج پھر اسی کردار نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا ہے۔ ایسے ظلم کے سامنے خاموش رہنا بزدلی ہے، اور اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہر غیرت مند انسان پر فرض ہے۔
اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو