Joined July 2012
9,680 Photos and videos
Pinned Tweet
پسندیدہ ترین غزل ❤️ جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے... جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے... جناب سلمان احمد ❤️
571
4,675
277
14,908
0
استاد مہدی حسن کی آواز میں آپ کی پسندیدہ غزل؟
38
6
7
77
زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد حوصلہ دینا انہیں میرے خدا میرے بعد کون گھونگٹ کو اٹھائے گا ستمگر کہہ کر اور پھر کس سے کریں گے وہ حیا میرے بعد پھر زمانے میں محبت کی نہ پُرسش ہو گی روئے گی سسکیاں لے لے کے وفا میرے بعد ہاتھ اٹھاتے ہوئے ان کو نہ کوئی دیکھے گا کس کے آنے کی کریں گے وہ دعا میرے بعد کس قدر غم ہے انہیں مجھ سے بچھڑ جانےکا ہو گئے وہ بھی زمانے میں جدا میرے بعد وہ جو کہتا تھا کہ ناصرؔ کے لئے جیتا ہوں اس کا کیا جانئے کیا حال ہوا میرے بعد حکیم ناصر
6
9
39
انہوں نے تمہیں دھوکہ دیا اور کہا کہ جو چوٹیں تمہیں مار نہ سکیں، وہ تمہیں مضبوط بنا دیتی ہیں، آؤ! میں تمہیں ان لوگوں کے بارے میں بتاؤں جو مہلک چوٹوں سے بچ نکلے۔ یہ بچ جانے والے تمہیں اُس خوف کی کہانی سنائیں گے، جو ساری زندگی ان کے ساتھ سایہ بن کر چلتا ہے: دنوں کا خوف، نئی چوٹ کے امکان کا خوف۔ وہ تمہیں بتائیں گے کہ کس طرح انہوں نے سکون اور دوسروں پر اعتماد کی حِس کو کھو دیا، بلکہ کبھی کبھی تو اپنے آپ پر بھی۔ مہلک چوٹوں سے بچنے والے ایک عجیب جذباتی جمود میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ وہ بےحس ہو جاتے ہیں، نہ غم انہیں رُلا پاتا ہے، نہ خوشی انہیں مسکرا پاتی ہے۔ وہ اچھی طرح جان لیتے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی شے ہمیشہ باقی نہیں رہتی۔ یہ چوٹوں سے بچے ہوئے لوگ تنہائی میں جیتے ہیں۔ چاہے ان کے گرد کتنی ہی بھیڑ کیوں نہ ہو، وہ جانتے ہیں کہ نئی چوٹ لگتے ہی سب ان کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ مہلک چوٹیں دوستا، انسان کو خود غرضی اور سنگ دلی کا سبق دیتی ہیں۔ وہ تمہیں بظاہر مضبوط تو بنا دیتی ہیں، مگر تمہارے باطن میں جو ملبہ اور کھنڈر رہ جاتے ہیں، ان کی خبر کسی کو نہیں ہوتی۔ --- احمد خالد توفیق، مصری ناول نگار ترجمہ: اسد اللہ میر الحسنی
1
9
25
تین گھنٹے سے میری طرف ایکس ٹھیک نہیں چل رہا ہے، آپ کی طرف ایکس ٹوئٹر ٹھیک چل رہا ہے؟
18
3
68
تمام احباب "وفا،" کے موضوع پر شاعری شئیر کریں۔ شکریہ
68
7
12
101
وہ بھی اپنے نہ ہوئے ، دل بھی گیا ہاتھوں سے “ ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا “ پیر نصیر الدین نصیرؒ
17
50
3
326
میں خیال ہوں کسی اور کا ،مجھے سوچتا کوئی اور ہے سلیم کوثر
5
24
3
96
0
جناب عارف امام کی غزل کبھی خاک ہوئے ان قدموں کی، کبھی دل کو بچھا کر رقص کیا اسے دیکھا خود کو بھول گئے، لہرا لہرا کر رقص کیا ترے ہجر کی آگ میں جلتے تھے، ہم انگاروں پر چلتے تھے کبھی تپتی ریت پہ ناچے ہم، کبھی خود کو جلا کر رقص کیا کیا خوب مزا تھا جینے میں، اک زخم چھپا تھا سینے میں اس زخم کو کھرچا ناخن سے اور خون بہا کر رقص کیا وہ جب نہ ملا محرابوں میں جسے ڈھونڈ رہے تھے خوابوں میں سجدے سے اٹھایا سر اپنا اور ہاتھ اٹھا کر رقص کیا کبھی تھمتی ہے کبھی چڑھتی ہے مری مستی گھٹتی بڑھتی ہے کبھی خاموشی کبھی جھوم لئے کبھی شور مچا کر رقص کیا سب بستی جنگل ہو آئے، مستی میں مقتل ہو آئے وہاں جنگ لڑی خود سے ہم نے اورتیغ چلا کر رقص کیا کہیں میرا خدا ناپید نہیں، کسی خاص جگہ کی قید نہیں تسبیح پڑھی بت خانے میں، محراب میں آکر رقص کیا
2
10
1
77
آج 18؍نومبر 1881 بنگال کے غالب، اردو ادب کے استاد شاعر اور بنگال کے ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر ”وحشتؔ_کلکتوی صاحب“ کا یومِ ولادت ہے۔ نام سیّد_رضا_علی، اور تخلص وحشتؔ ہے۔ 18؍نومبر 1881ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ مدرسہ عالیہ کلکتہ میں تعلیم پائی۔ کچھ عرصہ امپریل ریکارڈ ڈپارٹمنٹ میں چیف مولوی کے عہدے پر فائز رہے۔ بعدازاں کلکتہ میں اسلامیہ کالج میں اردو اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے رہے۔ 1931ء میں حکومت وقت نے ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب عطا کیا۔ شمسؔ فرید پوری سے تلمذ حاصل تھا جو حضرتِ داغؔ کے شاگرد تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وحشت کلکتہ سے ہجرت کر کے ڈھاکہ چلے گئے اور وہیں 30؍جولائی 1956ء کو وفات پا گئے۔ وحشتؔ نے غالب کا تتبع بڑی خوبی سے کیا ہے۔ کلام کا پہلا مجموعہ ’’دیوانِ وحشت‘‘ 1911ء میں شائع ہوا جس میں کچھ فارسی کلام بھی شامل تھا۔ ’’ترانۂ وحشت‘‘ کے نام سے مکمل کلام کا مجموعہ 1950ء میں چھپا۔ ’’نقوش و آثار‘‘ بھی ان کی تصنیف ہے۔ 👈 #بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:288 ※☆▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔☆※ 💐 معروف شاعر وحشتؔ کلکتوی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت... 💐 اے کاش مرے قتل ہی کا مژدہ وہ ہوتا آتا کسی صورت سے تو پیغام تمہارا --- دیکھنا وہ گریۂ حسرت مآل آ ہی گیا بیکسی میں کوئی تو پرسانِ حال آ ہی گیا --- آئینۂ خیال تھا عکس پذیر راز کا طور شہید ہو گیا جلوۂ دل نواز کا --- میں نے مانا کام ہے نالۂ دل ناشاد کا ہے تغافل شیوہ آخر کس ستم ایجاد کا --- ترے آشفتہ سے کیا حال بیتابی بیاں ہوگا جبینِ شوق ہوگی اور تیرا آستاں ہوگا --- ضبط کی کوشش ہے جان ناتواں مشکل میں ہے کیوں عیاں ہو آنکھ سے وہ غم جو پنہاں دل میں ہے --- رُخِ روشن سے یوں اٹھی نقاب آہستہ آہستہ کہ جیسے ہو طلوعِ آفتاب آہستہ آہستہ --- نہیں ممکن لبِ عاشق سے حرف مدعا نکلے جسے تم نے کیا خاموش اس سے کیا صدا نکلے --- وفائے دوستاں کیسی جفائے دشمناں کیسی نہ پوچھا ہو کسی نے جس کو اس کی داستاں کیسی --- مجال ترک محبت نہ ایک بار ہوئی خیال ترک محبت تو بار بار کیا --- کس طرح حسن زباں کی ہو ترقی وحشتؔ میں اگر خدمت اردوئے معلیٰ نہ کروں --- خیال تک نہ کیا اہل انجمن نے ذرا تمام رات جلی شمع انجمن کے لیے --- کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے --- دونوں نے کیا ہے مجھ کو رسوا کچھ درد نے اور کچھ دوا نے --- ہوا ہے شوق سخن دل میں موجِ زن وحشتؔ کہ ہم صفیر مرا رعب سا سخنداں ہے ●•●─┅━━━★✰★━━━┅─●•● 🔳 وحشتؔ رضا کلکتوی 🔳
4
5
31
آج 18؍نومبر 1914 اردو تنقید کے بانیوں میں نمایاں، عظیم مورخ، عالم دین، سیاسی مفکر اور فارسی شاعر، اپنی تنقیدی کتاب’ شعرُ العجم‘ کے لئے مشہور ”علّامہ_شبلیؔ_نعمانیؒ کا یومِ وفات ہے۔ نام محمد_شبلی اور شبلیؔ تخلص کرتے تھے۔ 03؍جون 1857ء کو موضوع بنڈول ضلع اعظم گڑھ، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ بڑے بڑے فاضل استادوں سے تعلیم پائی کئی سال تک علی گڑھ کالج میں پروفیسر رہے۔ ممالک اسلامیہ کی سیاحت کی اور اپنا سفرنامہ قلمبند کیا انگریزی گورنمنٹ سے شمس العلما کا خطاب پایا۔ ندوۃ العلما کو قائم کیا۔ ”ندوۃ المصنفین“ انہی کی یادگار میں قائم کیا گیا ہے جس نے اسلامی تاریخ اور ثقافت کے متعلق نہایت اہم اور نہایت قابل قدر کتابیں شائع کی ہیں۔ 18؍نومبر 1914ء کو انتقال ہوا۔ شعرالعجم پانچ جلدوں میں فارسی شاعروں کی مبسوط تاریخ ہے الماموں، سیرۃ النعمان ،سوانح مولانا روم ،الغزالی ان کی مشہور کتابیں ہیں ۔اسلامی تمدن و تہذیب کے متعلق جس قدر بلند پایہ مضامین انہوں نے لکھے وہ رہتی دنیا تک مولانا کے نام کو زندہ رکھیں گے ۔نظم شبلی ان کی نظموں کا مختصر سا مجموعہ ہے ۔سب سے آخری تصنیف سیرۃ النبیؐ ہے جو ان کا شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ ✦•──┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈──•✦ 💐 عظیم مورخ علّامہ شبلیؔ نعمانیؒ کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت... 💐 تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش میں ذرا عمرِ گذشتہ کی تلافی کر لوں کچھ تو ہو چارۂ غم بات تو یک سُو ہو جائے تم خفا ہو تو اجل ہی کو میں راضی کر لوں اور پھر کس کو پسند آئے گا ویرانۂ دل غم سے مانا بھی کہ اس گھر کو میں خالی کر لوں جورِ گردوں سے جو مرنے کی بھی فرصت مل جائے امتحانِ دمِ جاں پرورِ عیسیٰ کر لوں دل ہی ملتا نہیں سفلوں سے وگرنہ شبلیؔ خوب گذرے فلکِ دوں سے جو یاری کر لوں۔۔۔!! ══━━━━✥•••••◈•••••✥━━━━══ پوچھتے کیا ہو جو حال شبِ تنہائی تھا رُخصتِ صبر تھی یا ترکِ شکیبائی تھا شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا وہ بھی کیا رات تھی کیا عالم تنہائی تھا میں تھا یا دیدۂ خوننابہ فشانی شبِ ہجر ان کو واں مشغلۂ انجمن آرائی تھا پارہ ہائے دلِ خونیں کی طلب تھی پیہم شب جو آنکھوں میں مری ذوقِ خود آرائی تھا رحم تو ایک طرف پایہ شناسی دیکھو قیس کو کہتے ہیں مجنون تھا صحرائی تھا آنکھیں قاتل سہی پر زندہ جو کرنا ہوتا لب پہ اے جان تو اعجازِ مسیحائی تھا خون رو رو دیے بس دو ہی قدم میں چھالے یاں وہی حوصلۂ بادیہ پیمائی تھا دشمنِ جاں تھے ادھر ہجر میں درد و غم و رنج اور ادھر ایک اکیلا ترا شیدائی تھا انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رُخِ پیہم جس طرف بزم میں وہ کافر ترسائی تھا کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقشِ قدم چشمِ عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا خوب وقت آئے نکیرین جزا دے گا خدا لحد تیرہ میں بھی کیا عالمِ تنہائی تھا ہم نے بھی حضرت شبلیؔ کی زیارت کی تھی یوں تو ظاہر میں مقدس تھا پہ شیدائی تھا ✧◉➻══════════════➻◉✧ یار کو رغبتِ اغیار نہ ہونے پائے گُلِ تر کو ہوسِ خار نہ ہونے پائے اس میں در پردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ شکوۂ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے فتنۂ حشر جو آنا تو دبے پاؤں ذرا بخت خفتہ مرا بیدار نہ ہونے پائے ہائے دل کھول کے کچھ کہہ نہ سکے سوز دروں آبلے ہم سخن خار نہ ہونے پائے باغ کی سیر کو جاتے تو ہو پر یاد رہے سبزہ بیگانہ ہے دو چار نہ ہونے پائے جمع کر لیجئے غمزوں کو مگر خوبئ بزم بس وہیں تک ہے کہ بازار نہ ہونے پائے آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں لیکن شبلیؔ حالِ دل دیکھیے اظہار نہ ہونے پائے ●•●─┅━━━★✰★━━━┅─●•● علّامہ شبلیؔ نعمانی
1
14
1
64
بندے کو پہاڑ نہیں، کنکر مارتا ہے! تحریر: عارف انیس کیا آپ نے آج اپنا جوتا چیک کیا؟ یاد رکھیں آپ کا مقابلہ پہاڑ کی بلندی سے نہیں، ایک چھوٹے سے کنکر سے ہے، بندے کو سفر کی بلندی نہیں مارتی، اس کے جوتوں کے اندر گھسا ہوا کنکر مارتا ہے. یہ کنکریاں ہماری زندگی کا حصہ ہیں. یہ ہمیں پھسلا دیتی ہیں، سوچوں کو مسل دیتی ہیں، خوابوں کو چرا لیتی ہیں. یہ چھوٹے چھوٹے سے کام ہوتے ہیں جو ہمیں کھا جاتے ہیں. کبھی کنکر میں جوتے کے ساتھ سفر کیا ہے؟ بھلے سے آپ نے لاکھوں روپے مالیت کے نئے اطالوی جوتے پہنے ہوئے ہوں، اگر ان کے اندر کوئی چھوٹا سا کنکر بھی موجود ہے، تو راستہ کھوٹا اور لمبا ہوجائے گا. سفر توانائی چوس لے گا اور منزل پر پہنچنے کی بجائے کنکر سے نجات پانے کی فکر کھا جائے گی. ورنہ پاؤں کا چھالا تنگ کرتا رہے گا. یہ محمد علی کا قول ہے اور باکسنگ کے رنگ میں اس کی معنویت اور واضح ہوجاتی ہے. آج کا دن شروع کرتے ہوئے آپ کے ذہن میں کچھ ایسے کام ہیں جو آپ نے ضرور کرنے ہیں. فرق اس سے پڑتا ہے کہ دن کے اختتام پر کیا کچھ ہو چکا ہے. زندگی ہم سے نیت کے ساتھ عمل کا بھی خراج مانگتی ہے. لیکن مسئلہ دن کا نہیں، ہفتے، مہینے، سال اور زندگی بھر کا ہے. سوال یہ ہے کہ ہم نے جس پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا تھا، کیا ہم اسی پر موجود ہیں یا چھوٹی کنکریوں کی وجہ سے ہم ابھی ڈھلوانوں پر موجود ہیں اور پھسلتے جارہے ہیں. یہ ہمارا راستہ کھوٹا کرنے والے کنکر سچ مچ کے بھی ہوسکتے ہیں اور نفسیاتی اور جذباتی بھی ہوسکتے ہیں سٹریس ،انزائٹی وغیرہ نفسیاتی کنکر ہیں جب کہ غصہ، ڈر، حسد، نفرت، شرمندگی، اداسی وغیرہ 27 جذباتی کنکروں میں شامل ہیں جو ہماری رفتار توڑ دیتے ہیں. کبھی ہمارے بیمار رشتے اور ناطے یہ کنکر بن جاتے ہیں. ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اداسی کسی بھی دوسرے انسانی جذبے کے مقابلے میں انسانی شخصیت کے اندر 240 گنا زیادہ دورانیے تک اپنا اثر برقرار رکھتی ہے. کسی بھی رشتے دار کی موت یا بری خبر کے بعد لوگوں کو اس کے اثر سے نکلنے کے لیے کم از کم 120 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ جبکہ شرمندگی کے اثر سے باہر نکلنے میں صرف 30 منٹ کا عرصہ ہی درکار ہوتا ہے۔ نفرت کا جذبہ 60 گھنٹے تک انسان کو اپنے حصار میں لیے رکھتا ہے جبکہ خوشی کا احساس 35 گھنٹے تک برقرار رہتا ہے۔ بیزاری وہ جذبہ ہے جو 2 گھنٹوں میں انسانوں کے ذہن سے نکل جاتا ہے جبکہ امید، ڈر وغیرہ 24 گھنٹے، حسد 15 گھنٹے اور جوش و خروش 6 گھنٹے تک آپ کا احاطہ کیے رکھتا ہے۔ شکر گزاری کے احساس کو تحلیل ہونے میں 5 گھنٹے درکار ہوتے ہیں تو سکون کا احساس تین سے چار گھنٹوں میں چھن جاتا ہے۔ منزل کی طرف جانے کے رستے میں کنکر تو ہوتے ہیں اور وہ چاہتے، نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے جوتوں میں گھس جاتے ہیں. مسئلہ یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ یا تو انہی کنکریوں سمیت سفر جاری رکھا جائے اور آبلہ پائی کی جائے، یا چند ثانیے رکا جائے، جوتے اتارے جائیں اور انہیں جھاڑ لیا جائے، لمبے سانس لے کر مراقبہ کرلیا جائے یا دعا مانگ لی جائے اور سفر پھر سے شروع کرلیا جائے. یاد رکھیں یہ آخری کنکر نہیں ہوگا، اگلے کنکر کی تیاری بھی رکھیں، پھر اس سے نبٹیں اور سفر جاری رکھیں. بس یہ ذہن میں رکھیں کہ یا آپ جیتیں گے یا کنکر جیتے گا. اگر آپ نے کنکر ڈھونڈ لیا تو جوتے جھاڑ کر چلنا آسان ہوجائے گا. آج چلتے چلتے رکیں، لمبا سا سانس لیں، اپنے جوتوں کے اندر موجود کنکر کو محسوس کریں. آپ کیا بوجھ اپنے ساتھ لیے جارہے ہیں ؟کون سے کنکر آپ کا راستہ کھوٹا کر رہے ہیں؟ آپ رک کر اپنے جوتے کب جھاڑیں گے؟ عارف انیس مصنف کی زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس
4
10
52
کتنی پیاری ہیں باتیں اُسکی سردیوں میں گرم چائے ہو جیسے
3
8
2
77
چل انشاء اپنے گاؤں میں 💕 یہاں اُلجھے اُلجھے رُوپ بہت پر اصلی کم، بہرُوپ بہت اس پیڑ کے نیچے کیا رُکنا جہاں سایہ کم ہو، دُھوپ بہت چل انشاء اپنے گاؤں میں بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں کیوں تیری آنکھ سوالی ہے؟ یہاں ہر اِک بات نرالی ہے اِس دیس بسیرا مت کرنا یہاں مُفلس ہونا گالی ہے چل انشاء اپنے گاؤں میں بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں جہاں سچے رشتے یاریوں کے جہاں گُھونگھٹ زیور ناریوں کے جہاں جھرنے کومل سُکھ والے جہاں ساز بجیں بِن تاروں کے چل انشاء اپنے گاؤں میں بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں ابنِ انشاء
1
25
1
102
استاد قمر جلالوی کا ایک شعر لکھیں
68
8
10
194
ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا کئی مزاجوں کے دشت دیکھے , کئی رویّوں کی خاک چھانی عزم بہزاد
3
37
1
167
ہائے میری سیاہ رات! عربی حکایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص (بدو) نے اپنی چچازاد سے شادی کی اور اللہ نے اسے یکے بعد دیگرے نو بیٹے عطا کیے۔ قبیلے میں اس کی شان بلند ہو گئی، کیونکہ اس زمانے میں بیٹے طاقت، عزت اور فخر کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ مگر جب دسویں بار اس کی بیوی نے ایک بیٹی کو جنم دیا، تو گویا اس پر بجلی گر گئی۔ بجائے شکر کے، اس کے چہرے پر غصے اور ناگواری کے آثار پھیل گئے۔ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر چیخ اٹھا: "یا لیلی الأسود! یا لیلی الأسود!" (ہائے میری سیاہ رات، اے میرے بدنصیب دن!) اس نے اپنی بے چاری بیوی سے منہ موڑ لیا اور اس ننھی کلی کو اپنی لیے منحوس سمجھ بیٹھا۔ اس کی نگاہ میں بیٹی جرم بن گئی اور اس کی ماں مجرم۔ بیٹی کے وجود کو گویا اپنے لیے عار سمجھا۔ وقت گزرتا گیا۔ مہ و سال کی گردش جاری رہی۔ بیٹے جوان ہوئے، شادیاں ہوئیں، ان کے نئے خیمے آباد ہوئے اور پھر ایک دن وہ باپ، جو کبھی قبیلے کا فخر سمجھا جاتا تھا، اندھا ہو گیا۔ آنکھوں کی روشنی جاتی رہی، طاقت کا غرور مٹ گیا اور وہ بوڑھا اپنے خیمے میں تنہا رہ گیا۔ نو بیٹے، جن پر اس نے ناز کیا تھا، اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے۔ کسی نے پلٹ کر نہ دیکھا، نہ اس کے دکھ کا مداوا کیا۔ وہ سب جو کبھی اس کی طاقت تھے، اس کی کمزوری بن گئے۔ مگر وہ بیٹی، وہی جسے اس نے "لیلی الأسود" (سیاہ رات) کہا تھا، جب یہ خبر سنی کہ اس کا باپ نابینا ہو گیا ہے، دل تھام کر دوڑ پڑی۔ اس نے نہ شکایت کی، نہ ماضی کو یاد کیا، بس خاموشی سے باپ کے خیمے میں داخل ہوئی۔ اس نے اس بوڑھے، کمزور جسم کو نہلایا، خیمہ صاف کیا، کھانا پکایا، پانی رکھا۔ اس کے ہاتھوں کی نرمی، اُس کی سانسوں کی خوشبو، اس کی خدمت کا خلوص، سب کچھ اس باپ کے دل میں ایک اجنبی سی راحت پیدا کر گیا۔ کھانا کھلانے کے بعد جب اس نے دوا دینے کے لیے باپ کا ہاتھ تھاما، تو اس نے اس کی کلائی کو تھام کر لرزتی آواز میں پوچھا: "بتاؤ اے بیٹی، تُو کون ہے؟ تُو کون ہے، جس نے میرے اندھیرے میں یہ روشنی بھر دی ہے؟" اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا: "میں ہوں، تمہاری لیلی الأسود، تمہاری سیاہ رات!" یہ سننا تھا کہ اس بوڑھے کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے۔ وہ زار و قطار رو پڑا۔ اس کے دل پر ندامت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اس نے بیٹی کے ہاتھ تھام کر کہا: "بیٹی! مجھے معاف کر دو... کاش میری ساری راتیں سیاہ ہوتیں اور ان کی سیاہی تمہارے نور جیسی ہوتی!" پھر اس نے اپنے دل کی آگ کو اِن اشعار میں ڈھالا، جو مشہور ہوگئے: ليت الليالي كلها سود دام الهناء بسود الليالي لو الزمان بعمري يعود لأحبها أول وتالي ما غيرها يبرني ويعود ينشد عن سواتي وحالي تسعة رجالٍ كلهم جحود تباعدوا عن سؤالي ما غير ريح المسك والعود إبنتي بكل يومٍ قبالي ترجمہ: کاش تمام راتیں سیاہ ہوتیں اگر خوشی ان سیاہ راتوں میں ہی چھپی ہے اگر وقت واپس آ جائے تو میں اسے (بیٹی کو) سب سے پہلے اور سب سے آخر تک چاہوں میرے زخموں کا مرہم کوئی نہیں سوائے اُس کے جو میرا حال پوچھتی ہے نو بیٹے، سب سرکش، سب بے وفا کسی نے میری خیر نہ پوچھی مگر ایک ہے جو ہر دن میرے سامنے آتی ہے جس کی خوشبو کستوری اور عود کی طرح میرے خیمے کو مہکاتی ہے۔ یہ ہے اس بدوی باپ کی کہانی، جس نے بیٹی کی قدر دیر سے سمجھی، مگر جب سمجھی تو اپنی دنیا اور اندھی آنکھوں دونوں میں روشنی بھر لی۔ بیٹیاں عار نہیں ہوتیں، رحمت ہوتی ہیں۔ وہی دلوں کے زخموں پر مرہم رکھتی ہیں، وہی بوڑھوں کی تنہائیوں کو جنت بنا دیتی ہیں۔ (بحوالہ: روزنامہ عکاظ، سعودی عرب) ہماری_بیٹیاں_ہمارا_فخر_ہیں منقول
3
15
1
95
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد آج کا دن گزر نہ جائے کہیں نہ ملا کر اداس لوگوں سے حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں آرزو ہے کہ تو یہاں آئے اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصرؔ پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں ناصرؔ کاظمی
9
36
1
173
اردو ورثہ retweeted
تیری مشکل نہ بڑھاؤں گا چلا جاؤں گا اشک آنکھوں میں چھپاؤں چلا جاؤں گا اپنی دہلیز پہ کچھ دیر پڑا رہنے دے جیسے ہی ہوش میں آؤں گا چلا جاؤں گا خواب لینے کوئی آئے کہ نہ آئے کوئی میں تو آواز لگاؤں چلا جاؤں گا ان محلات سے کچھ بھی نہیں لینا مجھ کو بس تمھیں دیکھنے آؤں گا چلا جاؤں گا چند یادیں مجھے بچوں کی طرح پیاری ہیں ان کو سینے سے لگاؤں گا چلا جاؤں گا میں نے یہ جنگ نہیں چھیڑی یہاں اپنے لیے تخت پہ تم کو بٹھاؤں گا چلا جاؤں گا مدتوں بعد میں آیا ہوں پرانے گھر میں خود کو جی بھر کے رلاؤں گا چلا جاؤں گا اس جزیرے میں زیادہ نہیں رہنا اب تو آج کل ناؤ بناؤں گا چلا جاؤں گا حسن عباسی
6
42
178
تمام احباب اپنی پسند کی شاعری "چاند" کے موضوع پر لکھیں۔ شکریہ
126
22
24
354
خوشبوؤں کی شاعرہ پروینؔ شاکر ¹⁹⁹⁴-¹⁹⁵² جب کبھی خُوبیٔ قسمت سے تجھے دیکھتے ہیں آئینہ خانے کی حیرت سے تجھے دیکھتے ہیں وُہ جو پامالِ زمانہ ہیں مِرے تخت نشیں دیکھ تو کیسی مُحبّت سے تجھے دیکھتے ہیں کاسۂ دید میں بس ایک جھلک کا سکّہ ہم فقیروں کی قناعت سے تجھے دیکھتے ہیں تیرے کوچے میں چلے جاتے ہیں قاصد بن کر اور اکثر اسی صورت سے تجھے دیکھتے ہیں تیرے جانے کا خیال آتا ہے گھر سے جس دم در و دِیوار کی حسرت سے تجھے دیکھتے ہیں کہہ گئی بادِ صبا ،،، آج تِرے کان میں کیا ؟ پُھول کِس درجہ شرارت سے تجھے دیکھتے ہیں تجھ کو کیا علم تجھے ہارنے والے کُچھ لوگ کِس قدر سخت ندامت سے تجھے دیکھتے ہیں
3
32
1
105
0