صدیقی صاحب!
آپ کی یہ سطور پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سیاسی ناپختگی نے کسی اناڑی ہاتھ میں قلم تھما دیا ہو۔ مولانا فضل الرحمٰن پر “خاموشی” کا الزام وہی لوگ لگاتے ہیں جن کی اپنی سیاسی بصیرت شور و غوغا کے بغیر سانس ہی نہیں لے سکتی۔ سیاست ہر ہنگامے کو منبر اور ہر اختلاف کو فتوے کی کھڑکی سے دیکھنے کا نام نہیں؛ یہ فنِ تدبیر ہے—اور تدبیر چیخ و پکار کے تعویذ سے نہیں آتی۔
تاحیات استثنیٰ ہو یا کوئی آئینی موشگافی—مولانا صاحب جذباتی مہم جوئی کے بجائے ریاستی شعور کے ساتھ رائے دیتے ہیں۔ آپ جس طرزِ گفتگو کو “جرأت” سمجھتے ہیں، وہ دراصل سیاسی بلوغت سے محروم شوریدہ سری کے سوا کچھ نہیں۔
اور جہاں تک ان 19 ماہ میں ٹف ٹائم دینے کی بات ہے—
صاحب! ٹف ٹائم وہی دے سکتا ہے جو پارلیمانی عمل کا حصہ ہو، نہ کہ وہ جماعت جو عملاً سیاسی تنہائی کے صحرا میں اپنے ہی نادانی بھرے فیصلوں کی گونج سنتی رہتی ہے۔ مولانا صاحب سیاست کے شطرنج پر چالیں چلتے ہیں، ٹاک شوز میں نعرے نہیں بیچتے۔
حقیقت یہ ہے کہ:
مولانا فضل الرحمٰن کمپرومائزڈ نہیں، بلکہ آپ کا زاویۂ نظر معروضیت سے عاری اور سیاسی نابالغی کا اسیر ہے۔
آپ پہلے شعورِ سیاست سے آشنا ہوں، پھر مولانا پر حکم لگانے کی جسارت کر
وہ مولانا فضل الرحمان صاحب جو ذرا ذرا سی بات کو اسلام اور کفر کا مسئلہ بنا کر عوام کو اشتعال دلاتے ہیں ،وہ تاحیات استثنیٰ والے معاملے پر تقریباً خاموش ہیں ،
پھر جے یو آئی ایف والے ہمارے دوست کہتے ہیں کہ آپ مولانا فضل الرحمان صاحب کو کمپرومائزڈ کیوں کہتے ہیں ؟
مولانا صاحب نے پچھلے 19 ماہ میں کسی ایک بھی مسئلے پر موجودہ حکومت اور نظام کو ٹف ٹائم دیا ہے تو بتائیں